Sunday, December 11, 2011

آصف زرداری بال بال بچ گئے؟ اور اگلے حملے کی تیارياں

ایسا لگتا ہے کہ جناب آصف علی زراری ایک بار پھر اپنے اور جمہوری نظام کے مخالفین کے ایک انتہائی خطرناک اور تقریباٌ مہلک حملے سے بال بال بچ گئے ہیں۔ اس بار ان کی گردن سیدھے نشانہ پر تھی۔ بعض لوگ اس حملے کو ناقابلِ دفاع ”انوکی لاک“ سے بھی تشبیہ دے ہے تھے اور زرداری کے جانے کی خوشی منانے کیلئے مٹھائی کا آرڈر بھی دے چکے تھے۔

لیکن یہ بات تو طے ہے کہ ان کے اور جمہوری نظام کے مخالفین کا ان پر یہ آخری حملہ نہں تھا۔ وہ لوگ تو کب سے اگلے حملے کی پیشبندی بھی کر چکے ہونگے۔

اس بات کا ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ یہ چوہے بلی کا کھیل اس وقت تک جاری رہیگا جبتک ملک کے ”اصل حکمرانوں“ کو آئین کا پابند نہیں کیا جا تا، قومی سو ال حل نہیں کیا جاتا اور صوبوں کو انکے مکمل حقوق نہیں دیے جاتے۔

Friday, December 9, 2011

پاک-امریکہ ”پیچیدہ“ تعلقات


فیسبوک پروفائیل میں ایک سوال ہوتا ہے اذدواجی تعلقات کے بارے میں کہ شادی شدہ ہیں،کنوارے ہیں، فرینڈ ہے، منگنی ہے، وغیرہ، وغیرہ۔ کچھ لوگ جواب دیتے ہیں ”پیچیدہ“! دیکھا جائے تو یہ بات پاک-امریکی تعلقات پر بھی صادق آتی ہے کہ ان دو ممالک کے تعلقات واقعتٌا ”پیچیدہ“ ہیں۔ انکار بھی ہے، اقرار بھی ہے، پردہ داری بھی ہے، راز و نیاز بھی ہیں، لینے اور دینے والے ہاتھ بھی ہیں، تجسس بھی ہے تو بڑہکیں بھی ہیں۔ اندرونِ خانہ کیا ہے، کون جانے 

Friday, September 30, 2011

اے پی سی: آئی ایس آئی پر تنقید


پاکستان کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نےجو گزشتہ روز کل جماعتی کانفرنس بلائی اس میں  محمود خان اچکزئی اور میاں نواز شریف نے فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے کردار پر کھل 
کر تنقید کی۔
اجلاس میں شریک بعض سیاسی رہنماؤں نے بی بی سی کو بتایا کہ بلوچستان کے پشتون قوم پرست رہنما محمود خان اچکزئی نے ایک موقع پر آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ساری خرابیوں کی ذمہ دار آئی ایس آئی ہے اور اگر یہ (جنرل پاشا) سچے ہوں تو ایک ماہ کے اندر افغانستان میں اگر امن قائم نہ ہو تو میرا نام بدل دیں۔
اسامہ بن لادن کاکول میں آرمی چیف کی رہائش گاہ کے چند سو گز پر کیسے مقیم تھا۔ اگر ہماری انٹیلیجنس ایجنساں اور فوج کو ان کے بارے میں پتہ نہیں تھا تو پھر یہ ادارے بیکار ہیں۔
محمود خان اچکزئی
محمود خان جو اپنی نشست پر سے بولنے کے بجائے روسٹرم پر آئے، انہوں نے فوج اور آئی ایس آئی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ اور داخلی پالیسیاں فوج اور آئی ایس آئی بناتی ہیں۔ ان کے بقول جب تک یہ پالیسیاں پارلیمان نہیں بنائے گی تب تک اس خطے میں امن قائم نہیں ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب پاکستان ٹوٹا تو کسی کو کچھ نہیں ہوا، بارہ مئی کو کراچی میں گولیاں برسائی گئیں پچاس سے زیادہ بے گناہ لوگ مارے گئے لیکن کسی کو ذمہ دار نہیں ٹہرایا گیا۔ اسامہ بن لادن کیسے یہاں آئے اور وہ کاکول اکیڈمی میں آرمی چیف کی رہائش گاہ کے چند سوگز پر کیسے مقیم تھے، کچھ پتہ نہیں۔ اگر ہماری انٹیلیجنس اور فوج کو ان کے بارے میں پتہ نہیں تھا تو پھر یہ ادارے بیکار ہیں۔
ذرائع کے مطابق کانفرنس شروع ہونے سے قبل ہی ہال میں آئی ایس آئی کے چیف جنرل پاشا محمود خان اچکزئی سے باتیں کرتے رہے لیکن محمود خان نے انہیں کہا کہ وہ انہیں نہیں جانتے لیکن آج انہیں بہت کچھ سنائیں گے۔ جس پر جنرل پاشا مسکراتے رہے۔
قانون کے مطابق انٹیلیجنس ادارے وزیراعظم کے ماتحت ہیں لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہے۔
میاں نواز شریف
وزیراعظم کی تقریر کے بعد جب حنا ربانی کھر اور جنرل پاشا کی بریفنگ مکمل ہوئی تو وزیراعظم نے کہا کہ میاں نواز شریف بولنا چاہتے ہیں۔ جس پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ان کی طبیعت خراب ہے پہلے انہیں بولنے دیں۔ مولانا نے حکومت اور فوج سے شکوہ کیا کہ ان کی بات کوئی نہیں سنتا اور وہ پہلے دن سے امریکہ کے ساتھ تعاون کی پالیسی کے مخالف رہے ہیں۔
ان کے بعد وزیراعظم نے میاں نواز شریف کو بولنے کے لیے کہا تو محمود خان اچکزئی نے ہاتھ کھڑا کیا۔ وزیراعظم نے انہیں کہا کہ میاں صاحب پہلے بولیں گے۔ اچکزئی نے انہیں کہا کہ میاں صاحب بڑے لیڈر ہیں وہ بعد میں بولیں گے اور انہوں نے اپنی بات شروع کر دی۔
شرکاء کے بقول میاں نواز شریف کافی سنجیدہ رہے اور فوجیوں اور سیاستدانوں سے کافی احتیاط سے ملتے رہے۔ انہوں نے ٹھنڈے مزاج کے ساتھ فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے کردار پر تنقید کی اور کہا کہ قانون کے مطابق انٹیلیجنس ادارے وزیراعظم کے ماتحت ہیں لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہے۔
میرے اور بینظیر بھٹو دور میں انٹیلیجنس والے پہلے فیصلہ کرکےعمل کرلیتے تھے اور بعد میں بتاتے تھے کہ یہ ہوگیا۔
نواز شریف
انہوں نےکہا کہ ان کے دور حکومت یا بینظیر بھٹو کے دور میں انٹیلی جنس والے پہلے فیصلہ کرکے عمل کرلیتے اور بعد میں بتاتے تھے کہ یہ ہوگیا۔
میاں نواز شریف نے کہا کہ جب تک ایسا ہوتا رہے گا تو سیاستدان کیسے کردار ادا کرسکیں گے؟ انہوں نے کہا کہ وہ فوج یا انٹیلیجنس اداروں کے مخالف نہیں ہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ سیاست میں ان کا کردار نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے ایک موقع پر جنرل کیانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم سن رہے ہیں کہ پرویز مشرف کے دور میں امریکہ سے کوئی خفیہ معاہدے ہوئے ہیں جس کے ہم پابند ہیں۔ ہمیں بتائیں۔جب معلومات نہیں ہوگی تو فیصلے کیا کریں گے۔‘
انٹیلیجنس والے پہلے فیصلہ کرکےعمل کرلیتے اور بعد میں بتاتے
جس پر جنرل کیانی جو کم گو شخص ہیں انہوں نے لمبی تمہید باندھی اور کہا کہ ’ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے جس کے ہم پابند ہوں۔‘ جس پر میاں نواز شریف نے کہا کہ وہ قومی سلامتی کے خطرے کے پیش نظر یہاں اکٹھے ہوئے ہیں اور آنکھ بند کرکے کسی کے پیچھے نہیں چلیں گے۔
میر اسراراللہ زہری نے موضوع پر تو بات نہیں کی البتہ بلوچستان میں بدامنی، اغوا، لوٹ مار اور مار دھاڑ پر بات کی۔ انہوں نے مری اور مینگل سرداروں پر تنقید کی اور کہا کہ بلوچستان چور اور ڈاکو بن گیا ہے۔
عمران خان نے اعلامیہ کے متن پر اعتراض کیا اور کہا کہ اپنے لوگوں سے بات چیت شروع کی جائے اور یہ نکتہ اس میں شامل کریں۔
سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے چیئرمین اور جی ایم سید کے پوتے جلال محمود شاہ نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی ناکام ثابت ہوئی ہے اس لیے نئی پالیسی اسٹیبلشمینٹ کے بجائے پارلیمان بنائے۔
کانفرنس کے آغاز میں جب قومی ترانہ بجایا گیا تو تمام لوگ کھڑے ہوگئے۔ جب ترانہ ختم ہوا تو محمود خان اچکزئی نے کہا کہ یہ شاد باد آباد بجا کر سب کو اٹھایا گیا کیا کسی کو یہ یاد بھی ہے۔ کوئی لکھ کر بتا سکتا ہے؟ جس پر متحدہ قومی موومنٹ کے حیدر عباس رضوی نے ہاتھ کھڑا کیا۔
وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے اپنی تقریر انگریزی میں شروع کی تو بعض مذہبی رہنماؤں نے اعتراض کیا کہ انہیں انگریزی سمجھ نہیں آتی۔ جس پر انہوں نے اردو اور انگریزی میں ملی جلی بات کی۔
پاکستان اور افغانستان مل کر امریکہ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ترکی اور سعودی عرب کے ذریعے بھی امریکہ کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیر خارجہ حنا ربانی کھر
وزیر خارجہ نے بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان عالمی سطح پر تنہائی کا شکار نہیں ہے۔ ان کے بقول ہیلری کلنٹن سے جب ملاقات ہوئی تو وہ ٹھیک تھیں لیکن اگلے روز ان کے لب و لہجہ میں تلخی آگئی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ چالیس ممالک کے سفیروں اور نمائندوں سے ملی ہیں اور انہیں اپنے موقف کے بارے میں حمایت کے لیے رضا مند کیا۔
حنا ربانی کھر نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان مل کر امریکہ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ترکی اور سعودی عرب کے ذریعے بھی امریکہ کو سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستان نے آج تک حقانی گروپ کو ایگ گولی یا ایک روپیہ بھی فراہم نہیں کیا۔ ان کا افغانستان میں کافی اثر و رسوخ ہے ۔
آئی ایس آئی سربراہ جنرل شجاع پاشا
کل جماعتی کانفرنس میں آئی ایس آئی کے سربراہ نے اپنی بریفنگ کا فوکس صرف حقانی نیٹ ورک پر رکھا۔ ان کے بقول مولانا جلال الدین حقانی افغانستان میں پیدا ہوئے لیکن تعلیم اکوڑہ خٹک میں جامعہ حقانیہ سے حاصل کی اور وہاں استاد بھی رہے۔ انہوں نے دو شادیاں کی ہیں اور ان کے بچوں کی تعداد کافی ہے۔ ان کے بقول مولانا حقانی کی ایک بیوی پشتون اور ایک عرب نژاد ہے۔ ان کے کچھ بچے شدت پسند نہیں ہیں اور پاکستان میں پر امن زندگی گزارتے ہیں اور ان سے پاکستان کا رابطہ رہتا ہے۔
جنرل شجاع پاشا کے بقول پاکستان نے آج تک حقانی گروپ کو ایگ گولی یا ایک روپیہ بھی فراہم نہیں کیا۔ ان کا افغانستان میں کافی اثر و رسوخ ہے اور وہ افغانستان میں ہیں۔ مولانا جلال الدین حقانی کافی ضعیف ہیں اور ان کے گروپ کے کمانڈر ان کے بیٹے مولانا سراج الدین حقانی ہیں اور میرانشاہ کے علاقے میں رہتے ہیں۔
جلال الدین حقانی امریکی صدر رونالڈ ریگن کے منظور نظر رہے ہیں اور ان سے امریکہ، سعودی عرب اور دیگر ممالک کے رابطے رہے ہیں اور پاکستان اکیلا نہیں ہے۔
Courtesy:BBC.Urdu

Wednesday, September 21, 2011

متاثرینِ سیلاب کی تعداد اسّی لاکھ سے تجاوز کرگئی

پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ صوبۂ سندھ میں شدید بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی تعداد اسّی لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔
پی ڈی ایم اے کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق سیلاب اور بارشوں سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد تین سو باون ہوچکی ہے جس میں ترانوے خواتین اور تراسی بچے شامل ہیں۔
اُدھر صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ یہ قدرتی آفت ملک کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ کراچی میں تاجر برادری سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امدادی سرگرمیوں کو مانیٹر کرنے کے لیے بلاول ہاؤس میں ایک مانیٹرنگ روم بنا دیا گیا ہے اور وہ ذاتی طور سے امدادی کاموں کا جائزہ لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ صوبۂ سندھ میں ایسے علاقے کے لوگوں کی گندم کے زیادہ بیچ دیے جائیں گے جو بارشوں سے متاثر نہیں ہوئے ہیں تاکہ ان علاقوں میں گندم کی پیداوار کو بڑھایا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم ایسے اقدامات کریں گے کہ ہمیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے گندم درآمد نہ کرنی پڑے۔‘

بچے شدید متاثر

اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کے اہلکار عبدالسمیع مالک نے بی بی سی کے پروگرام سیربین میں مہوش حسین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی اس طرح کی کوئی آفت آتی ہے تو اس میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں کیونکہ ایسے حالات میں بچے اپنا خیال خود نہیں رکھ سکتے۔
اس قسم کی آفت میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں: یونیسیف کے اہلکار
انہوں نے کہا کہ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ سندھ کے کئی علاقے زیرِ آب آ چکے ہیں اور کئی جگہوں پر سیوریج کا پانی مل گیا ہے جبکہ کھڑے ہوئے پانی میں مچھر بھی بہت ہوتے ہیں اور اس سے بیماریاں بھی ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان حالات میں بچوں کو اگر پیاس لگے تو وہ کہیں سے بھی پانی پی لیتے ہیں جس کے باعث ان میں اسہال اور ہیضہ کے خدشات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں جبکہ مچھروں کی وجہ سے ملیریا ہونے کا بہت خطرہ ہوتا ہے۔
عبدالسمیع مالک نے سیلاب زدہ علاقوں کا حال ہی میں دورہ کیا ہے۔ ان کے بقول کئی بچے اور لوگ بیمار ہیں اور انہیں دواؤوں کی ضرورت ہے جبکہ جو لوگ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں انہیں سائبان چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اپیل کے بعد سے اقوامِ متحدہ کے پاکستان میں تمام اداروں نے فوری امدادی کا کام شروع کردیا ہے۔ ان کے بقول اس قسم کی آفات میں شروع کے دنوں میں جان بچانے پر ساری توجہ مرکوز ہوتی ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ جس حد تک ہو سکے انسانی جانیں بچائی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ یونیسیف کا ادارہ بچوں کے لیے کام کرتا ہے اور ’ہماری پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم صاف پانی مہیا کریں تاکہ بچے اور بڑے صاف پانی استعمال کر سکیں۔ ایسی صورتحال میں بچوں میں ویکسینیشن بھی ضروری ہوتی ہے اور ہم نے فی الحال سیلاب زدگان کے بچوں کے لیے پولیو اور خسرہ کی ویکسینیشن کا آغاز کردیا ہے۔‘

اقوامِ متحدہ کی عالمی اپیل

اقوام متحدہ نے پاکستان میں سیلاب کے متاثرین کی مدد کے لیے تقریباًچھتیس کروڑ ڈالر غیر ملکی امداد کی اپیل کی ہے۔
ہماری پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم صاف پانی مہیا کریں تاکہ بچے اور بڑے صاف پانی استعمال کر سکیں۔ ایسی صورتحال میں بچوں میں ویکسینیشن بھی ضروری ہوتی ہے اور ہم نے فی الحال سیلاب زدگان کے بچوں کے لیے پولیو اور خسرہ کی ویکسینیشن کا آغاز کردیا ہے۔
عبدالسمیع مالک
پاکستان میں اقوام متحدہ کے کوآرڈینیٹر تیمو پکالا نے کہا کہ اب تک کے اندازے کے مطابق سندھ میں ہی پچاس لاکھ سے زیادہ افراد متاثرہ ہوئے ہیں اور متاثرین کی تعداد ستر لاکھ سے زیادھ بھی ہوسکتی ہے۔
تیمو پکالانےکہا کہ متاثرہ علاقوں میں رہائش ایک بڑا مسئلہ ہے لہٰذا عالمی برادری فوری طور پر ڈیڑھ لاکھ خیمے بھی مہیّا کرے۔
ادھر سندھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کام کرنے والی بعض امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیادوں پر احتجاج کے باعث متاثرین تک رسد شدید متاثر ہو رہی ہے۔
دو غیر ملکی امدادی اداروں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ملازمین کو مرکزی دفتروں سے ایسی صورتحال میں سفر نہ کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہیں۔

اقوام متحدہ کی جائزہ رپورٹ تیار

اقوام متحدہ اور حکومت نے سندھ کے بارش اور سیلاب سے متاثرہ سولہ اضلاع کی ابتدائی جائزہ رپورٹ تیار کرلی ہے۔
ایسی صورتحال میں بچے اپنا خیال خود نہیں رکھ سکتے: عبدالسمیع مالک
اقوام متحدہ کے امدادی ادارے اوچا کا کہنا ہے کہ سیلاب اور بارش سے 54 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں، جن میں انچاس فیصد خواتین ہیں۔
اوچا کی رپورٹ کے مطابق موجودہ صورتحال کی وجہ سے دس لاکھ خاندان متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے پانچ فیصد کی سربراہ خواتین اور چار فیصد کے سربراہ معذور افراد ہیں۔
فوری ضروریات کا تعین کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 59 مقامات کے جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ میرپورخاص اور تھرپارکر میں فوری شیلٹر کی ضرورت ہے۔

متاثرینِ سیلاب کا احتجاج

متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان کی عدم دستیابی پر لوگوں میں اشتعال بڑھ رہا ہے۔
متاثرین سیلاب کا کہنا ہے کہ وہ بیس روز سے کھلے آسمان کے نیچے بیھٹے ہوئے ہیں اور اب تک کسی سرکاری اور غیر سرکاری ادارے نے ان کی مدد نہیں کی ہے جبکہ ان کا سارا سامان بارشوں کی نذر ہو گیا ہے۔
سانگھڑ کے شہر جھول میں رکنِ صوبائی اسمبلی عبدالستار راجپوت کی فیکٹری کے باہر فائرنگ میں ایک بارہ سالہ بچہ غلام حسین ہلاک ہو گیا ہے۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے سے امدادی سامان یہاں موجود تھا مگر تقسیم نہیں کیا جا رہا تھا۔
دوسری جانب میر پور خاص کے شہر نو کوٹ میں سامان کی تقسیم کے دوران لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہو گئی اور چھینا جھپٹی کے دوران ایک بزرگ شخص پیروں تلے آ کر ہلاک ہو گیا۔

بشکریہ بی بی سی

پی پی کئی بار حکومت میں آئی، سندھ کیلئے کچھ نہیں کیا: نواز شریف

Courtesy: daily Jang 22 September, 2011

Sunday, August 28, 2011

کراچی کو رحمان بابا سے بچایا جائے: جی این مغل

ترجمہ: شفق

جی این مغل

مٰختلف حلقوں کی جانب سے وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کے خلاف لگنے والے الزامات پر مشتمل چارج شیٹ اب تمام لمبی ہوتی جارہی ہے۔ اس چارج شیٹ میں کچھ انتہایٔ سنگین اور لرزادینے والے الزامات بھی شامل ہیں۔ اتنے الزامات لگنے کے بعد پاکستان خاص طور پر سندھ کی سیاسیت میں رحمان بابا کے مبینہ طور پر انتہاءی 'منفی' کردار کو اب زیادہ نظرانداز کرنا ایک بڑے قومی جرم کے مترادف ہوگا جس کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔

کچھ دن پہلے جب میڈیا میں یہ خبریں آئیں کہ سندھ کابینہ کے اجلاس جس کی صدارت وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کی سندھ کے سیئنر وزیر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے رحمان بابا پر سندھ کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور دھشتگردوں کی حمایت کا الزام لگایا اور ان میں سے کچھ الزامات کی جھلک میڈیا میں پیش کی گئ تو اعتبار نہیں ہورہا تھا کہ وزیر داخلہ ایسا بھی کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر بعد میں رحمان ملک اور ذوالفقار مرزا کی مشترکہ طور پر  ایسی اطلاعات کی ترید اور ایک دوسرے کی تعریف کی گءی تو ایسی اطلاعات کو غیر سنجیدہ جان کر بھلا دیا گیا۔ بعد میں ذوالفقار مرزا کی اسلام آباد طلبی اور تنبیھہ اور آئندہ ایسی بیان بازی سے باز رہنے کی تلقین۔ صدر زرداری اور لندن میں مقیم اتحادی کے درمیان راضی نامہ اور ذوالفقار مرذا کو سفیر بنانا ایم کیو ایم کا صوبائ اور قومی حکومت میں واپسی اور پ پ پ کا کراچی اور حیدرآباد کے معاملات میں مداخلت نہ کرنا وغیرہ جیسی اطلاعات آتی رہیں۔ جن پر بھی یقین نہ آیا۔

 اس دوران رحمان بابا کا کراچی میں سرجیکل آپریشن شروع ہوگیا جس کے متعلق کہا گیا کہ یہ آپریشن غیر جانبدارانہ نہین لیکن ایک جماءت کو خوش کرنے کے لءے کیا جارہا ھے جس کے  نشانے پر کراچی کے مختلف علاقوں میں رہنے والی پاکستان کی مستقل قومیتوں کے افراد رہے ہیں۔ اعتبار نہ آیا تو سوچا ان علاقوں میں جاکر خود سے دیکھنا جائے گر الزامات درست ہوں تو پھر سخت نوٹس لینا چاہئے۔

اچانک ایک دوست کی طرف سے اطلاع ملی کہ پ پ کراچی کے ایم این اے عبدالقادر پٹیل نے بی بی سی کے نمائندے اعجاز مھر کو ایک انٹرویو میں رحمان بابا پر ڈاکٹر مرزا کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی نہ صرف تصدیق کی لیکن کچھ مزید الزامات بھی لگاءے۔ ٹیپ کئے گئے انٹرویو کو سننے کے بعد خاصی حیرانگی محسوس ہوئ۔ سوال اٹھتا ہے کہ جب سندھ کابینہ کے وزیر اعظم کی صدارت میں منعقد کئے گئے اجلاس میں رحمان ملک کی موجودگی میں بمع ثبوت لگائے گئے ذوالفقار مرزا کے الزامات کو سندھ حکومت اور وزیراعظم کیوں نظر انداز کررہے ہیں۔ کیا یہ وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے ملک میں رہنے والوں کی جان مال اور ملکیت کی حفاظت کرنے اور غیر قانونی سرگرمیوں کا  قلع قمع                       کرنے کے لئے،  لئے گئے حلف کی پاس خاطری کرنے سے کیوں گریز کررہے ہیں۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ ہماری صوبائ اور وفاقی حکومتیں "ریاست" کے نظرءے کا کام سرانجام نہیں دے رہیں جس کا تعین آئین میں کیا گیا ہے؟ کیا آج تک کسی وفاقی وزیر نے دھشگردوں اور اسمگلروں کو آزاد کرنے کے حکم نامے جاری کئے ہیں؟ یہ کیا ہورہا ہے۔ گر وفاقی وزیر یہ سب کچھ کرنے کے لئے آزاد ہیں اور وزیر اعلیٰ اوروزیر اعظم ان سب غیر قانونی حرکتوں کا کوئ نوٹس لینا مناسب نہیں سمجھتے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ صوبے اور ملک میں ہر شہری بھی سب کچھ کرنے کے لئے آزاد ہے؟

اس مد میں وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں رحمان ملک کی موجودگی میں پی اہم ایل (کیو) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ نے رحمان ملک کے کردار پر شدید نکتہ چینی کی اور مطالبہ کیا کہ "کراچی کو رحمان ملک سے بچایا جائے"

اس کے علاوہ کراچی میڈیا والے اس بات کے گواہ ہیں کہ کتنی بار رحمان ملک نے دعویٰ کئے ہیں کراچی سے ۱۰۰ سے زیادہ دھشت گرد گرفتارکئے جاچکے ہیں جن کو جلد میڈیا کے سامنے لایا جائے گا لیکن آج تک ایسا نہیں ہوسکا۔

یہ بھی کہا جارہا ہے کہ رحمان ملک کراچی میں بیٹھ کر رینجرز کے ذریعے ایسا آپریشن کررہے ہیں جس سے فقط ایک خاص جماعت کو خوش کرسکیں۔ اور ایسا نہ ہو کہ رحمان بابا کے اس قسم کے آپریشن سے بدذہن ہوکر کہیں سندھی بلوچ پشتون حکومت کے خلاف بغاوت نہ کردیں!

یہاں اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ محترمہ بینظیر بھٹو قتل کے بارے میں حقاءق اکھٹا کرنے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی جانب سے قاءم کی گئ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جن افراد کے کردار کو مشکوک قرار دیا تھا اس میں رحمان ملک کا نام بھی شامل ہے لیکن ان کا نام نہ ایف آئ آر میں شامل ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کسی سطح پر کوئ تحقیقات ہوئ ہے۔

ان ساری حقیقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سندھ پاکستان کی عوام یہ مطالبہ کرتی ہے فوراً طور پر رحمان ملک کو حکومت سے برطرف کرکے ان کے خلاف عاءد الزامات کی تحقیقات کے لئے اعلی سطحی کمیشن قاءم کیا جاءے۔

اگر سندھ کے عوام سے پوچھا جائے گا تو یقیناً وہ ذوالفقار مرزا کے اس مطالبے کی حمایت کریں گے رحمان ملک پر فوری طور پر سندھ کے اندر آنے پر پابندی لگائ جائے۔

کچھ حلقوں سے یہ بھی مطالبہ ہورہا ہے کہ کچھ دن پہلے کورنگی میں سندھ کے دوسرے اضلاع سے آئے ہوئے پولیس آفسران پر کئے گئے حملے میں رحمان ملک کے ملوث ہونے کے امکان کی تحقیقات کی جائیں۔

اعلان ہوا کہ کراچی کی صورت حال کے حوالے سے اے پی سی بلائ جارہی ہے۔ پتہ چلا یہ فیصلہ واپس لیا گیا۔

یہ فیصلہ کراچی کی اتحادی جماعت کے دباءو کے تحت ہوا یا یہ رحمان ملک کے دباءو کے تحت؟ کیا حکومتیں ایسے فیصلے کرتی ہیں اور واپس لیتی ہیں؟

یہ مضمون روزنامہ عوامی آواز میں گذشتہ ہفتے شایع ہوا تھا

ذوالفقار مرزا: تمام کشتیاں جلا کر آیا شخص تھا: ہارون رشید



جب کوئی سیاست کو اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیتا ہے تو پھر وہ بظاہر ذوالفقار مرزا کی طرح کی کھری کھری باتیں کرتا ہے۔ نہ مصلحت، نہ مفاہمت اور نہ ہی کسی کی دوستی یارانہ۔ ذوالفقار مرزا نے سب کچھ بظاہر بالائے طاق رکھ دیا۔ ایک شخص قرآن کو سر پر رکھ کر اگر کوئی بات کرتا ہے تو پھر بعض حلقوں کی جانب سے ان کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ بےمعنی لگتا ہے۔ ویسے انہوں نے 
سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونے کی پیشکش تو کر ہی دی ہے۔
ذوالفقار مرزا نے جو کہنا تھا کہہ دیا لیکن معاملے کی سنگینی کو شاید کم کرنے کی ایک کوشش کے طور پر بعض سیاسی تجزیہ کار تو ذوالفقار مرزا کو ذہنی مریض تک قرار دینے لگے ہیں۔ اس کا شک ان کے گزشتہ دنوں ایک بیان کے بعد ہوا جس پر دیکھتے ہی دیکھتے کراچی میں خون کی ہولی نے درجنوں افراد کی جان لے لی۔ اس وقت وہ یقیناً بغیر سوچے سمجھے، جھگڑالو شخص کا بےموقع بےمحل بیان تھا۔ لیکن اتوار کوکراچی پریس کلب میں کچھ ایسا نہیں تھا۔ یہ شخص اپنی تمام تیاری کے ساتھ، تمام کشتیاں جلا کر آیا شخص تھا۔
کراچی میں کسی نے کھل کر ایسی باتیں کبھی نہیں کیں۔ ملک کی ایک بڑی مضبوط جماعت سے متعلق ایسی باتیں تو کوئی نیند میں بھی کرنے سے ڈرتا ہے لیکن انہوں نے سب کہہ دیا۔ ان کے بیانات کو وزن دینے کی بڑی وجہ ان کا سندھ کے سابق وزیر داخلہ اور سینیئر وزیر ہونا ہے۔ انہوں نے بہرحال گزشتہ تین برسوں میں تمام صورتحال کو انتہائی قریب سے دیکھا ہے۔ اس لاوا کے پھٹ پڑنے کی شاید وجہ تین برس میں ایم کیو ایم کو قابو میں لانے میں ان کی ناکامی بھی ہوسکتی ہے۔


ان کی باتیں اور الزامات اس وقت صدر آصف علی زرداری کے مسائل میں اضافہ ہی کر سکتے ہیں۔ ان کی مفاہمت کی پالیسی کو کئی قدم پیچھے لیجا سکتی ہے۔ لہٰذا ان کا اس ’شو‘ میں ہاتھ ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ لیکن سیاست میں کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ذوالفقار مزرا کو خرچ کر کے سیاسی ’مائلج‘ حاصل کرنے کی تو کوئی کوشش نہیں۔
صدر نے تو چند روز پہلے ہی الطاف حسین کو ٹیلیفون کر کے حکومت میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔ ایسے میں کہیں ایم کیو ایم کے ساتھ ’گوڈ کاپ، بیڈ کاپ‘ کی پالیسی کے تحت نمٹنے کی کوشش تو نہیں ہو رہی ہے؟ اس میں ایک عاد قریبی ساتھی اگر جاتا ہے تو یہ غالباً کوئی زیادہ بڑی قیمت نہیں۔ ایم کیو ایم کے خلاف جو باتیں کوئی نہیں کرسکتا تھا وہ بالآخر پیپلز پارٹی کے ہی ایک رہنما نے کہہ دیں۔
جیسا کہ توقع تھی پیپلز پارٹی اور مرکزی حکومت نے اخباری کانفرنس کے محض دو گھنٹوں کے اندر ہی وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق نے اسے ذوالفقار مرزا کی ذاتی رائے قرار دے کر اس سے لاتعلقی ظاہر کر دی۔ لیکن اس سے زیادہ اس کی ایک وجہ کراچی میں دوبارہ تشدد کی آگ بھڑکنے سے بچانے کی کوشش ہو سکتی ہے۔
ان کی جذباتی تقریر کی عام لوگ تو تعریف کر رہے ہیں لیکن بعض قرآن کو درمیان میں لانے اور اس طرح استعمال کرنے پر لعن طعن بھی کر رہے ہیں۔ لیکن اگر یہ سچ ثابت کرنے کے لیے کیا ہے، صحافی ولی خان بابر کے قاتلوں کو بےنقاب کرنے کے لیے کیا ہے، انصاف دلانے کے لیے کیا ہے تو پھر شاید اتنا غلط بھی نہیں۔ آخر جنہوں نے سیاسی، لسانی، معاشی یا پھر وقتی مفادات کے لیے گاجر مولی کی طرح مارے گئے ان کے لواحقین کو کچھ تو انصاف ملے۔
سندھ کے سابق وزیر داخلہ کے وفاقی وزیر داخلہ کے خلاف الزامات کے ساتھ ساتھ دیگر الزامات بھی توجہ طلب ہیں۔ یہ ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب سپریم کورٹ بھی کراچی میں سماعت سوموار سے سماعت شروع کر رہی ہے۔ چھوٹی موٹی کارروائی تو بقول رحمان ملک ہو رہی ہے اور چھوٹے موٹے ملزمان اور آلائے کار پکڑے بھی جا رہے ہیں لیکن ایک بڑا درخواست گزر کہتا ہے ثبوت کے ساتھ موجود ہے اور راضی بھی ہے، بڑے جج بھی سوموار سے موجود ہوں گے اب کیا بڑے ملزمان حاضر ہوں گے؟
Courtesy: BBC Urdu dot com