Sunday, August 28, 2011

کراچی کو رحمان بابا سے بچایا جائے: جی این مغل

ترجمہ: شفق

جی این مغل

مٰختلف حلقوں کی جانب سے وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کے خلاف لگنے والے الزامات پر مشتمل چارج شیٹ اب تمام لمبی ہوتی جارہی ہے۔ اس چارج شیٹ میں کچھ انتہایٔ سنگین اور لرزادینے والے الزامات بھی شامل ہیں۔ اتنے الزامات لگنے کے بعد پاکستان خاص طور پر سندھ کی سیاسیت میں رحمان بابا کے مبینہ طور پر انتہاءی 'منفی' کردار کو اب زیادہ نظرانداز کرنا ایک بڑے قومی جرم کے مترادف ہوگا جس کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔

کچھ دن پہلے جب میڈیا میں یہ خبریں آئیں کہ سندھ کابینہ کے اجلاس جس کی صدارت وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کی سندھ کے سیئنر وزیر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے رحمان بابا پر سندھ کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور دھشتگردوں کی حمایت کا الزام لگایا اور ان میں سے کچھ الزامات کی جھلک میڈیا میں پیش کی گئ تو اعتبار نہیں ہورہا تھا کہ وزیر داخلہ ایسا بھی کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر بعد میں رحمان ملک اور ذوالفقار مرزا کی مشترکہ طور پر  ایسی اطلاعات کی ترید اور ایک دوسرے کی تعریف کی گءی تو ایسی اطلاعات کو غیر سنجیدہ جان کر بھلا دیا گیا۔ بعد میں ذوالفقار مرزا کی اسلام آباد طلبی اور تنبیھہ اور آئندہ ایسی بیان بازی سے باز رہنے کی تلقین۔ صدر زرداری اور لندن میں مقیم اتحادی کے درمیان راضی نامہ اور ذوالفقار مرذا کو سفیر بنانا ایم کیو ایم کا صوبائ اور قومی حکومت میں واپسی اور پ پ پ کا کراچی اور حیدرآباد کے معاملات میں مداخلت نہ کرنا وغیرہ جیسی اطلاعات آتی رہیں۔ جن پر بھی یقین نہ آیا۔

 اس دوران رحمان بابا کا کراچی میں سرجیکل آپریشن شروع ہوگیا جس کے متعلق کہا گیا کہ یہ آپریشن غیر جانبدارانہ نہین لیکن ایک جماءت کو خوش کرنے کے لءے کیا جارہا ھے جس کے  نشانے پر کراچی کے مختلف علاقوں میں رہنے والی پاکستان کی مستقل قومیتوں کے افراد رہے ہیں۔ اعتبار نہ آیا تو سوچا ان علاقوں میں جاکر خود سے دیکھنا جائے گر الزامات درست ہوں تو پھر سخت نوٹس لینا چاہئے۔

اچانک ایک دوست کی طرف سے اطلاع ملی کہ پ پ کراچی کے ایم این اے عبدالقادر پٹیل نے بی بی سی کے نمائندے اعجاز مھر کو ایک انٹرویو میں رحمان بابا پر ڈاکٹر مرزا کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی نہ صرف تصدیق کی لیکن کچھ مزید الزامات بھی لگاءے۔ ٹیپ کئے گئے انٹرویو کو سننے کے بعد خاصی حیرانگی محسوس ہوئ۔ سوال اٹھتا ہے کہ جب سندھ کابینہ کے وزیر اعظم کی صدارت میں منعقد کئے گئے اجلاس میں رحمان ملک کی موجودگی میں بمع ثبوت لگائے گئے ذوالفقار مرزا کے الزامات کو سندھ حکومت اور وزیراعظم کیوں نظر انداز کررہے ہیں۔ کیا یہ وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے ملک میں رہنے والوں کی جان مال اور ملکیت کی حفاظت کرنے اور غیر قانونی سرگرمیوں کا  قلع قمع                       کرنے کے لئے،  لئے گئے حلف کی پاس خاطری کرنے سے کیوں گریز کررہے ہیں۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ ہماری صوبائ اور وفاقی حکومتیں "ریاست" کے نظرءے کا کام سرانجام نہیں دے رہیں جس کا تعین آئین میں کیا گیا ہے؟ کیا آج تک کسی وفاقی وزیر نے دھشگردوں اور اسمگلروں کو آزاد کرنے کے حکم نامے جاری کئے ہیں؟ یہ کیا ہورہا ہے۔ گر وفاقی وزیر یہ سب کچھ کرنے کے لئے آزاد ہیں اور وزیر اعلیٰ اوروزیر اعظم ان سب غیر قانونی حرکتوں کا کوئ نوٹس لینا مناسب نہیں سمجھتے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ صوبے اور ملک میں ہر شہری بھی سب کچھ کرنے کے لئے آزاد ہے؟

اس مد میں وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں رحمان ملک کی موجودگی میں پی اہم ایل (کیو) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ نے رحمان ملک کے کردار پر شدید نکتہ چینی کی اور مطالبہ کیا کہ "کراچی کو رحمان ملک سے بچایا جائے"

اس کے علاوہ کراچی میڈیا والے اس بات کے گواہ ہیں کہ کتنی بار رحمان ملک نے دعویٰ کئے ہیں کراچی سے ۱۰۰ سے زیادہ دھشت گرد گرفتارکئے جاچکے ہیں جن کو جلد میڈیا کے سامنے لایا جائے گا لیکن آج تک ایسا نہیں ہوسکا۔

یہ بھی کہا جارہا ہے کہ رحمان ملک کراچی میں بیٹھ کر رینجرز کے ذریعے ایسا آپریشن کررہے ہیں جس سے فقط ایک خاص جماعت کو خوش کرسکیں۔ اور ایسا نہ ہو کہ رحمان بابا کے اس قسم کے آپریشن سے بدذہن ہوکر کہیں سندھی بلوچ پشتون حکومت کے خلاف بغاوت نہ کردیں!

یہاں اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ محترمہ بینظیر بھٹو قتل کے بارے میں حقاءق اکھٹا کرنے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی جانب سے قاءم کی گئ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جن افراد کے کردار کو مشکوک قرار دیا تھا اس میں رحمان ملک کا نام بھی شامل ہے لیکن ان کا نام نہ ایف آئ آر میں شامل ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کسی سطح پر کوئ تحقیقات ہوئ ہے۔

ان ساری حقیقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سندھ پاکستان کی عوام یہ مطالبہ کرتی ہے فوراً طور پر رحمان ملک کو حکومت سے برطرف کرکے ان کے خلاف عاءد الزامات کی تحقیقات کے لئے اعلی سطحی کمیشن قاءم کیا جاءے۔

اگر سندھ کے عوام سے پوچھا جائے گا تو یقیناً وہ ذوالفقار مرزا کے اس مطالبے کی حمایت کریں گے رحمان ملک پر فوری طور پر سندھ کے اندر آنے پر پابندی لگائ جائے۔

کچھ حلقوں سے یہ بھی مطالبہ ہورہا ہے کہ کچھ دن پہلے کورنگی میں سندھ کے دوسرے اضلاع سے آئے ہوئے پولیس آفسران پر کئے گئے حملے میں رحمان ملک کے ملوث ہونے کے امکان کی تحقیقات کی جائیں۔

اعلان ہوا کہ کراچی کی صورت حال کے حوالے سے اے پی سی بلائ جارہی ہے۔ پتہ چلا یہ فیصلہ واپس لیا گیا۔

یہ فیصلہ کراچی کی اتحادی جماعت کے دباءو کے تحت ہوا یا یہ رحمان ملک کے دباءو کے تحت؟ کیا حکومتیں ایسے فیصلے کرتی ہیں اور واپس لیتی ہیں؟

یہ مضمون روزنامہ عوامی آواز میں گذشتہ ہفتے شایع ہوا تھا

ذوالفقار مرزا: تمام کشتیاں جلا کر آیا شخص تھا: ہارون رشید



جب کوئی سیاست کو اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیتا ہے تو پھر وہ بظاہر ذوالفقار مرزا کی طرح کی کھری کھری باتیں کرتا ہے۔ نہ مصلحت، نہ مفاہمت اور نہ ہی کسی کی دوستی یارانہ۔ ذوالفقار مرزا نے سب کچھ بظاہر بالائے طاق رکھ دیا۔ ایک شخص قرآن کو سر پر رکھ کر اگر کوئی بات کرتا ہے تو پھر بعض حلقوں کی جانب سے ان کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ بےمعنی لگتا ہے۔ ویسے انہوں نے 
سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونے کی پیشکش تو کر ہی دی ہے۔
ذوالفقار مرزا نے جو کہنا تھا کہہ دیا لیکن معاملے کی سنگینی کو شاید کم کرنے کی ایک کوشش کے طور پر بعض سیاسی تجزیہ کار تو ذوالفقار مرزا کو ذہنی مریض تک قرار دینے لگے ہیں۔ اس کا شک ان کے گزشتہ دنوں ایک بیان کے بعد ہوا جس پر دیکھتے ہی دیکھتے کراچی میں خون کی ہولی نے درجنوں افراد کی جان لے لی۔ اس وقت وہ یقیناً بغیر سوچے سمجھے، جھگڑالو شخص کا بےموقع بےمحل بیان تھا۔ لیکن اتوار کوکراچی پریس کلب میں کچھ ایسا نہیں تھا۔ یہ شخص اپنی تمام تیاری کے ساتھ، تمام کشتیاں جلا کر آیا شخص تھا۔
کراچی میں کسی نے کھل کر ایسی باتیں کبھی نہیں کیں۔ ملک کی ایک بڑی مضبوط جماعت سے متعلق ایسی باتیں تو کوئی نیند میں بھی کرنے سے ڈرتا ہے لیکن انہوں نے سب کہہ دیا۔ ان کے بیانات کو وزن دینے کی بڑی وجہ ان کا سندھ کے سابق وزیر داخلہ اور سینیئر وزیر ہونا ہے۔ انہوں نے بہرحال گزشتہ تین برسوں میں تمام صورتحال کو انتہائی قریب سے دیکھا ہے۔ اس لاوا کے پھٹ پڑنے کی شاید وجہ تین برس میں ایم کیو ایم کو قابو میں لانے میں ان کی ناکامی بھی ہوسکتی ہے۔


ان کی باتیں اور الزامات اس وقت صدر آصف علی زرداری کے مسائل میں اضافہ ہی کر سکتے ہیں۔ ان کی مفاہمت کی پالیسی کو کئی قدم پیچھے لیجا سکتی ہے۔ لہٰذا ان کا اس ’شو‘ میں ہاتھ ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ لیکن سیاست میں کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ذوالفقار مزرا کو خرچ کر کے سیاسی ’مائلج‘ حاصل کرنے کی تو کوئی کوشش نہیں۔
صدر نے تو چند روز پہلے ہی الطاف حسین کو ٹیلیفون کر کے حکومت میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔ ایسے میں کہیں ایم کیو ایم کے ساتھ ’گوڈ کاپ، بیڈ کاپ‘ کی پالیسی کے تحت نمٹنے کی کوشش تو نہیں ہو رہی ہے؟ اس میں ایک عاد قریبی ساتھی اگر جاتا ہے تو یہ غالباً کوئی زیادہ بڑی قیمت نہیں۔ ایم کیو ایم کے خلاف جو باتیں کوئی نہیں کرسکتا تھا وہ بالآخر پیپلز پارٹی کے ہی ایک رہنما نے کہہ دیں۔
جیسا کہ توقع تھی پیپلز پارٹی اور مرکزی حکومت نے اخباری کانفرنس کے محض دو گھنٹوں کے اندر ہی وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق نے اسے ذوالفقار مرزا کی ذاتی رائے قرار دے کر اس سے لاتعلقی ظاہر کر دی۔ لیکن اس سے زیادہ اس کی ایک وجہ کراچی میں دوبارہ تشدد کی آگ بھڑکنے سے بچانے کی کوشش ہو سکتی ہے۔
ان کی جذباتی تقریر کی عام لوگ تو تعریف کر رہے ہیں لیکن بعض قرآن کو درمیان میں لانے اور اس طرح استعمال کرنے پر لعن طعن بھی کر رہے ہیں۔ لیکن اگر یہ سچ ثابت کرنے کے لیے کیا ہے، صحافی ولی خان بابر کے قاتلوں کو بےنقاب کرنے کے لیے کیا ہے، انصاف دلانے کے لیے کیا ہے تو پھر شاید اتنا غلط بھی نہیں۔ آخر جنہوں نے سیاسی، لسانی، معاشی یا پھر وقتی مفادات کے لیے گاجر مولی کی طرح مارے گئے ان کے لواحقین کو کچھ تو انصاف ملے۔
سندھ کے سابق وزیر داخلہ کے وفاقی وزیر داخلہ کے خلاف الزامات کے ساتھ ساتھ دیگر الزامات بھی توجہ طلب ہیں۔ یہ ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب سپریم کورٹ بھی کراچی میں سماعت سوموار سے سماعت شروع کر رہی ہے۔ چھوٹی موٹی کارروائی تو بقول رحمان ملک ہو رہی ہے اور چھوٹے موٹے ملزمان اور آلائے کار پکڑے بھی جا رہے ہیں لیکن ایک بڑا درخواست گزر کہتا ہے ثبوت کے ساتھ موجود ہے اور راضی بھی ہے، بڑے جج بھی سوموار سے موجود ہوں گے اب کیا بڑے ملزمان حاضر ہوں گے؟
Courtesy: BBC Urdu dot com

Saturday, August 27, 2011

مشرف کا متعارف کرایا ہوا لسانی مقامی نظام اور سندھ کی خودمختاری کا سوال: محمد ابراہیم جویو

محمد ابراہیم جویو


پولس کو اختیارات، رحمان ملک کو نظر بند کریں، سندھ کے حالات ٹھیک کر دونگا: ذوالفقار مرزا



Courtesy: daily Jang

سندھ کے حالات: کوئی مسیحا نظر نہیں آتا


سندھ انتہائی کربناک دور سے گذر رہا ہے۔ اسکے دُکھوں کا مداوا کرنے والا تو کوئی نہیں، البتہ اسکو لہولہاں کرنے والے بہت ہیں۔ حيرت کی بات ہے کہ مجرموں کے بارے میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی سب ڈرے ہوئے اور سہمے ہوئے ہیں۔ قاتلوں اور دہشتگردوں کے خلاف قدم اٹھانا تو دور کی بات ہے، کسی میں ان کا نام تک لینے کی ہمت نہیں۔ حتی کہ عاصمہ جہانگیر جیسی بہادر عورت بھی یہ کہہ کے پہلو بچاتی ہیں کہ "سب جانتے ہیں کہ حالات کی خرابی کے ذمہ دار کون ہیں"۔ لگتا ہے کہ چیف جسٹس بھی ٹال مٹول ہی کر جائینگے۔ کوئی مسیحا نظر نہیں آتا

واہ، دہشت ہو تو ایسی

واہ، دہشت ہو تو ایسی! آپ قتل بھی کرو، لوگوں کو اغوا کر کے اذیتیں بھی دو، بوری بند لاشیں بھی پھینکو، بھتہ خوری، قبضہ گیری بھی کرو، شہر کو خون سے نہلا بھی دو پر میڈیا، اردو دانوں، حکومت، فوج اور دوسروں حتی کہ بین الاقوامی طور پر دہشتگردی کے خلاف لڑنے والے ملکوں پر بھی آپ کی بے رحمی اور سفاکی کی ایسی دھاک بیٹھی ہو کہ کوئی آپ کا نام نہ لے سکے۔ واہ، دہشت ہو تو ایسی